سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ ۔۔۔پہلے ترامیم فرد واحد کو اختیار دینے کےلئے کی جاتی تھیں۔۔ وہ جب چاہے عوامی نمائندگان کو رخصت کردے۔۔۔جج صاحبان اپنے پاس اختیار کیسے لے سکتے ہیں اگر کسی کو 62-63کے تحت سزا دینی ہے تو شہادت کے بعد جزا سزا ہوتو ڈس کونااہل کرسکتے ہیں۔۔184 تھری کے تحت دو جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجا گیا ہے۔۔نوازشریف یا یوسف رضا گیلانی کو گھر 184 تھری کے تحت بھیجا گیا۔۔۔جج کون ہو گا اس کا فیصلہ جج نے کرنا ہے جج کون نہیں رہے گا اس کا فیصلہ بھی جج کرے گا یہ کیا ہے۔۔چھبیسویں آئینی درست سمت کی طرف ایک قدم ہے شاید کچھ اور کرنا پڑے ۔۔۔ارکان پارلیمنٹ اس بات کو سمجھے اگر جگہ چھوڑ دیں گے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی افادیت کم کی تو نیب جیسے ادارے بن گئے۔۔جسٹس فضل کریم کی کتاب آج بھی منہ چڑھا کر سوال پوچھتی ہے اس کو پڑھیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔۔اگر چھبیس ویں آئینی ترمیم میں کوئی کمی ہے تو غور کرنا ہوگا لیکن یہ کام اعظم نذیر تارڑ وزیر اعظم مولانا فضل الرحمن بلاول بھٹو کا کام ہے آئین کو اصل بنیادی ڈھانچہ میں لائیں۔۔معاشرہ کو تلوار کے ذریعے نہیں بنا سکتے بلکہ ڈائیلاگ کرنا ہوگا سیاسی عدم استحکام سے نقصان شہریوں کو ہوگا۔۔معیشت ترقی نہیں کر سکتی جب سیاسی استحکام نہیں ہوگا۔۔۔لاہور پریس کلب کے ساتھ میرا رشتہ بہت پرانا ہے۔۔۔میرے طالب علمی کے دور سے پریس کلب کو ایک مؤثر ادارا سمجھا ہے۔۔۔آپ لوگوں کا یہ میٹ دی پریس بڑا مؤثر اقدام ہے۔۔۔اخلاق باجوہ ہمارے بھائی تھے ہم اپنا حق ادا کرتے رہیں گے۔